Sunday 1 October 2017

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار۔۔۔!
شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گُھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گُھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے۔۔۔!
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو، ہم جانیں​ ۔۔۔!
فیض

Sab Kuch Wesy Hi Chalta hai


سب کچھ ویسے ہی چلتا ہے
..................................................
سب کچھ ویسے ہی چلتا ہے
جیسے چلتا تھا جب تم تھی
رات بھی ویسے ہی سر موندے آتی ہے
دن ویسے ہی آنکھیں ملتا جاتا ہے
تارے ساری رات جمائیاں لیتے ہیں
سب کچھ ویسے ہی چلتا ہے
جیسے چلتا تھا جب تم تھی
کاش ! تمہارے جانے پر کچھ فرق تو پڑھتا جینے میں
پیاس نہ لگتی پانی کی
یا ناخن بڑھنا بند ہو جاتے
بال ہوا میں نہ اُڑتے
یا دُهواں نکلتا سانسوں سے
سب کچھ ویسے ہی چلتا ہے
بس اتنا فرق پڑھا ہے میری راتوں میں
نیند نہیں آتی تو اب سونے کے لئے
اک نیند کی گولی روز نگلنی پڑھتی ہے
............. گلزار .....

Hansi


لوگ سیاست میں شرابور ہیں
اور مجھے تمھاری ہنسی نہیں بھول رہی ہے
تمھاری ہنسی
تمام خوبصورت اور امن پسند موسموں کی متفقہ امیدوار ہے
تم یقینا" جیت جاؤ گی
تمھارے مقابلے پر بھی کوئی نہیں ہے
اور تم سیاست میں بھی نہیں ہو
تم بہت خوبصورت ہنستی ہو
تمھاری ہنسی مجھے معبدوں کی روایت یاد دلاتی ہے
قدیم صحیفے میں سنہری روشنائی سے درج ہے
وہ کبھی ہلاک نہیں کئے جائیں گے
جن کا وجود ان کا عدم ہے
ان کے لفظ کبھی چوری نہیں ہوں گے
جو آنکھوں سے بولتے ہیں اور کانوں سے دیکھتے ہیں
اور وہ کبھی مسترد نہیں ہوں گے
جو ارادہ پیش نہیں کرتے 
تمھاری ہنسی، شور پر نغمے 
اور ہتھیار پر پھول کی فتح کی علامت ہے
ہنستی رہنا 
مجھے کچھ یاد نہیں رہتا
اور تمھاری ہنسی مجھے بھول نہیں رہی

Nam Likhti Hai Mujhay


نظم لکھتی ہے تجھے
میں نہیں
یہ نظم لکھتی ہے تجھے
اپنی سطروں میں ترے ہاتھوں کی شمعوں کی نزاکت
صبحِ حرفِ خواب کے رنگوں سے لکھتی ہے
تری ان سبز آنکھوں کے انوکھے زاویوں کو ،جھوٹ سچ کو،جھوٹ سچ اور مصلحت کو اور حسنِ مصلحت کے
راز لکھتی ہے
جانِ جاں یہ میرے لہجے میں
ترے سُرتال لکھتی ہے
مرے دن کی اُداسی ،راستہ تکنے کی عجلت
اورمری آنکھیں جو تیری چمپئی خوشبو کی گرہوں میں بندھی رہتی ہیں
ان کا حال لکھتی ہے
نظم میری ہے مگر دھڑکن کے وقفوں میں
ترے قدموں کی آہٹ اور ترے سب خال وخد
نقطوں،کشوں اور دائروں کے باب میں لکھتی ہے کاغذ کی سفیدی پر ترے ماتھے کی روشن صبحیں
شامیں درج کرتی ہے
کبھی ترے گھنے بالوں سے مضموں باندھتی ہے
اور کبھی تری سلگتی سانس سے مصرع بناتی ہے
کبھی تیرے لہو کی آنچ سے عنواں چراتی ہے
ترے چشم و لب و رُخ کے کنارے
تجھ سے ملنے کے کئی رَستے سجھاتی ہے
کچھ اس انداز سے تجھ کو
مری خاطر
مری یہ نظم لکھتی ہے

Khawabon Ko Batein Karny do



خوابوں کو باتيں کرنے دو

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے
آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں


راہ گزر کا، موسم کا، ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دان
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

Thursday 30 March 2017

Me Woh Shajar tha

میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جُھولنے کی ھزاروں جسموں کو آرزو تھی
زمیں کی آنکھیں درازیء عمر کی دُعاؤں میں رو رھی تھیں
اور سُورج کے ھاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں
کہ میں اِک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا
کہ اُس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے تو پھر نہ اُٹھے
جو میری شاخوں پہ آ کے جُھولے تو سارے موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا، مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنے سائے
جو توڑ آیا تھا کتنی شاخیں
مگر لگا یُوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ھے
وہ میرے خوابوں کا ھمسفر ھے
سو میں نے سائے بچھا دیے تھے
تمام جُھولے ہلا دیے تھے
مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا، مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نموُ اور بے ثمر تھا
مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر تھا
عجب شجر تھا
عجب شجر ھُوں
کہ آنے والے سے کہہ رھا ھُوں
اے میرے دل میں اُترنے والے
اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مِری روشنی مبارک!
تجھے مِری زندگی مبارک!!

Tum Ne Mujh Ko Janam Diya

تم نے مجھ کو جنم دیا
اور ماں کہلائیں
سینے سے لگ کر جب تم نے " بابا" بولا
تم بیٹی تھیں
میں ٹوٹا تو تم نے مجھ کو گلے لگایا
دل کہلائیں
راکھی اور چادر نے مجھ کو رشتوں کی تہذیب سکھائی
میں پتھر تھا
تم کونپل کے جیسے میرے اندر پھوٹیں
اور آدم نے شبد لکھا تھا
جیون کے سارے رشتوں میں تم بہتر ہو
وہ جو تم کو " آدھا بہتر" کہتے ہیں
وہ خود آدھے ہیں
تم پوری ہو !
پوری عورت 
اپنے پورے پن میں کوئی شک مت کرنا !
جتنے دن ہیں
سارے دن عورت کے دن ہیں 
جتنے دل ہیں
سارے دل عورت کے دل ہیں
جب تک دن ہیں
جب تک دل ہیں
تم پوری ہی کہلاو گی 
تم جیون کو مہکاو گی !

Agar me Tumhara

اگر میں تمہارا انتطار کر سکتا
تو زمین پر روزِ شمار
کبھی نہ آتا!
اگر میں تمہاری آنکھوں کے جنگل میں
درخت جیسا اُگ سکتا
تو میری جڑیں
کائنات کے دل تک پھیل جاتیں
اور خدا میری شاخوں پر
بادل بن کر برستا
اور پھول بن کر کِھلتا!
اگر میں تمہاری راتوں کی نیندیں اوڑھ سکتا
تو کسی پارینہ خواب کی بارگاہ میں
دیا بتی کرتا
تمہاری مقدس تاریکیوں سے
روشنی کی بشارت لیتا
اور دنیا کو
اپنی آنکھوں سے طلوع ہوتے ہوئے دیکھتا!
اگر میں تمہارے ساتھ چل سکتا
تو راستہ کبھی ختم نہ ہوتا
یہاں تک کہ
وقت اپنے پھٹے پرانے جاگرز پہنے
کسی زنگ آلودہ فولادی بینچ پر
تھک کر بیٹھ جاتا!
اگر میں تمہارا ہاتھ تھام سکتا
تو سرمئی بادلوں کی سیڑھیوں پر پاؤں رکھتا
افق تا افق
قوسِ قزح کے پُل سے گزرتا
اور بچوں کی طرح
عمروں کے بوڑھے ساحلوں پر
کاسنی شاموں کے ڈھیر لگا دیتا
آسمان فرشتوں کے الوہی پروں
اور گلابی پرندوں کی اڑانوں سے بھر جاتا!
اگر میں تمہارا لفظ بن سکتا
تو متن سے حاشیے تک
معانی جیسا پھیل جاتا
نظم، اگر میں لکھ سکتا
تو تمہارے لیے ایک نظم ضرور لکھتا!!

Adha Chaand aur adha aansu



آدھا چاند اور آدھا آنسو
تیرے پیار کے دکھ نے
چاند کو کاٹ دیا ہے
کیوں نا آدھا آدھا کر لیں 
آدھا حصہ تو لے جائے
آدھا حصہ میں لے جاؤں
تو کیا جانے۔۔۔۔؟
آدھے چاند کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟
آدھے چاند کا مطلب 
آدھا بندھن ہے
آدھا جیون، آدھی موت اور آدھا دل
آدھا عشق اور آدھی یاری
آدھے چاند کا مطلب آدھی بے چینی ہے
آدھے چاند کا مطلب آدھی ویرانی ہے
تو کیا جانے۔۔۔؟
آدھا آنسو کیا ہوتا ہے۔۔۔؟
آدھا آنسو آدھے چاند سے زیادہ آدھا ہوتا ہے


فرحت عباس شاہ

Hum BHi Tery Bagher

ہم بھی ترے بعد جی رہے ہیں 
اور تُو بھی کہیں بہل رہا ہے
سمجھا کے ابھی گئی ہیں سکھیاں
اور دل ہے کہ پھر مچل رہا ہے
کیسے معلوم ؟؟
کون اس راز کی صدیوں پرانی 
کیفیت سے آشنا ہے ؟
یہ میرے چاروں طرف کیوں اک سکوت بے صدا ہے ؟
میں کہوں کس سے ؟
میری اجڑی ہوئی آنکھوں کے خالی روزنوں سے 
اس طرف کیا ہے ؟
خلا ہے یا ستارے پھانکتی اندھی ہوا ہے ؟
جانتا کون ہے ؟
کس پہ کھل سکا ہے ؟
جسم کے خالی کھنڈر میں 
کون اب تک بس ہے ؟
تم مجھے دیکھو 
میں اپنے آپ سے ڈرتا ہوں شب کو 
جب اندھیرا بولتا ہے 
دل کا سناٹا 
پرانی داستانوں سے اٹے بھیدوں کی گرہیں کھولتا ہے 
جب لہو کی آگ میں لت پت کواڑوں سے 
الجہتی ہیں مری چیخیں 
کوئی سنتا نہی مجھہ کو ؟
بکھرتے ٹوٹتے خوابوں میں جب میں تقسیم ہوتا ہوں 
کوئی چنتا نہی مجھہ کو ؟
تو ایسا ہے کہ تم اپنی مہکتی نیند سے کھیلو 
( نہ دکھہ جھیلو )
میری تنہائی کے اسرار مت پوچھو 
کہیں ایسا نہ ہو تم بھی 
خود اپنے آپ کو گنوا بیٹھو 
میری خواہش اور اپنے درمیاں 
بھیدوں بھری دیوار رہنے دو
مجھے کچھہ دن 
میری اجڑی ہوئی آنکھوں کے خالی روزنوں سے اس طرف 
تاریک لمحوں کے بھنور میں بس یونہی 
بیدار رہنے دو 
مجھے صدیوں پرانی داستانوں کی طرح 
اندھی ہوا کے ساتھہ .......رہنے دو 
"پراسرار رہنے دو "
-
( محسن نقوی )

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...