Monday, January 19, 2015

Kisi Ki aankh Jo purnam nahi hai

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے

سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے

سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے

یہ بستی ہے ستم پرور دگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے

میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے

جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک باز گشتِ غم نہیں ہے

امجد اسلام امجد​

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...