Wednesday, November 20, 2013

CHalo Hanstay Huey Rukhsat Karo Mujh Ko

ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔۔

وہ کہتا ہے ۔ ۔
پَرندوں کی اُڑانیں قطع ہوتی ہیں ۔ ۔
تو ہونے دو ۔ ۔
درختوں پر لکھے نا موں کی خوشبو کو دُھوئیں کا زہرڈستا ہے ۔ ۔
تو ڈسنے دو ۔ ۔
دُکانیں کُھل گئیں خوابوں کا کاروبار سستا ہے ۔ ۔ ۔
تو رہنے دو ۔ ۔ 
ہرے پتوں پہ ہریالی ذرا سی ہے ۔ ۔
فضا میں کس قدر گہری اُداسی ہے ۔ ۔
اگر خلقِ خدا خاموش رہنا چاہتی ہے ۔ ۔
ظلم سہنا چاہتی ہے ۔ ۔
اور اگر دِل میں اُمیدوں کی تاریکیوں کا خوف روشن ہے ۔ ۔
تمہں کس بات کا غم ہے ۔ ۔
تمہں کاہے کی اُلجھن ہے ۔ ۔
میں دکھ سے ٹوٹے جاتا ہوں ۔ ۔
وہ کہتا ہے ۔ ۔
جو لمحہ ہم سے دامن گیر ہے ۔ ۔
اُس کا کہا مانو ۔ ۔
بدن جو کہ رہا ہے ۔ ۔
وہ زباں سمجھو ۔ ۔
وہ لمحہ جو ہمیں دو مختلف سمتوں کی دوری سے اُٹھا کے مرکزی نقطے پر لے جائے ۔ ۔

علاوہ اس کے جو کچھ ہے زیاں سمجھو ۔ ۔
بہت سی اَن کہی باتوں سے دم گھٹنے لگا ہے ۔ ۔
آؤ ۔ ۔ ۔ اِس خلوت کدے کے مرکزی پھیلاؤ میں ان کو رہا کر دیں ۔ ۔
کوئی ہل چل مچائیں اور ہنگامہ بپا کر دیں ۔ ۔
ابھی تم کہ رہے تھے ۔ ۔
جس طرف دیکھو ۔ ۔
محلے گھر گلی بازار رستے آنسوؤں اور سِسکیوں سے بھر گئے ہیں ۔ ۔
جانے کتنے لازمی کردار بے مقصد کہانی کے سفر میں مر گئے ہیں ۔ ۔
خواب گاہوں سے ہمارے خواب سڑکوں پر نکل آئے

۔ ۔
تماشہ کرنے والے بھی نگاہوں میں نہیں آئے ۔ ۔
تماشہ دیکھنے والے بھی اب آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ ۔
ہمارے رت جگے نیندوں سے بو جھل ہیں ۔ ۔
درو دیوار سے اُلجھی ہوئی سرگوشیوں کے زخم رستے ہیں ۔ ۔
سمے کی بھاگتی پر چھا ئیوں کی اوٹ میں پھیلے ہوئے سائے نئی تاریخ لکھتے ہیں ۔ ۔
میں اُس کو دیکھتا ہوں ۔ ۔
اور نئی تاریخ کا صفحہ اُلٹتا ہوں ۔ ۔
ستم کی آگ میں جلتے ہوئے جسموں کی مزدوری ۔ ۔
ہزاروں دائروں اور سلسلوں کے درمیا ں رکھی ہوئی دوری ۔ ۔
ہمارا پیرھن صدیوں کی مجبوری ۔ ۔
ہماری خواہشوں کے پر نہیں ہوتے ۔ ۔
کہ ساری عمر جن کی چار دیواری کو بنتے ہیں ۔ ۔
ہمارے گھر نہیں ہوتے ۔ ۔

ہمارے آئنے خود اپنی ہی حیرت سے ڈرتے ہیں ۔ ۔
ہمارے خواب ۔ ۔
تعبیروں کے آنگن میں ۔ ۔
خس و کا شاک کی صورت بکھرتے ہیں ۔ ۔
مگر اک آس دل میں کروٹیں لیتی ہے ۔ ۔
اک اُمید کی بارش میں تن من بھیگ جاتا ہے ۔ ۔
خیال آتا ہے ۔ ۔
دکھ ۔ ۔ ۔ جاتی ہوئی رُت کے مُسافر ہیں ۔ ۔
اسی جاتی ہوئی رُت کی خزاں آباد گلیوں میں ۔ ۔
بہار آثار آبادی کے جگنو پھیل جائیں گے ۔ ۔
رویوں اور رسموں کے کھنڈر ہوتے ہوئے جنگل کے سناٹے ۔ ۔
رہائی کے لئے رستہ بنائیں گے ۔ ۔
نئے قدموں کی آہٹ سر اُٹھا ئے گی ۔ ۔
ہوا ۔ ۔ ۔ آواز کا چہرہ بنائے گی ۔۔ ۔
یہی چہرہ تمہارا ہے ۔ ۔ یہی میرا ہے ۔ ۔ سب کا ہے ۔ ۔
یہ لوحِ وقت پہ محفوظ کب کا ہے ۔ ۔

میں اُس کو دیکھتا ہوں ۔ ۔
اور اک صفحہ پلٹتا ہوں ۔ ۔
بہت نزدیک آتے فاصلوں کی دھند چھٹتی ہے 
کہ جیسے درد کی زنجیر کٹتی ہے 
زمانہ ایک ساعت کو ٹھرتا ہے
پلک جھپکوں تو یہ منظر بکھرتا ہے
ہمیشہ کے لئے کب رات رہنی ہے 
اِسی ٹھرے ہوئے پل میں تمہں اک بات کہنی ہے
تم ہنستے ہو 

تو کتنے بے ریا جذبوں کے عکس آواز بنتے ہیں 
چلو ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو 
جو چلتے ہو ۔ ۔
تو کیسے روشنی چھنتی ہے پیروں سے 
چلو چلتے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو
ابھی جس آگ میں ہم جل رہے ہیں آؤ 
اوراُس آگ میں جلتے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو 
چلو ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو

 سلیم کو ثر 

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...