میرے بیس برس۔۔۔ پچیس برس
کہاں کے ہوئے ہیں؟ کہاں گئے؟
کن یاروں میں تقسیم ہوئے
کس کھاتے میں انہیں درج کروں؟
میرے بیس برس__ پچیس برس
میری آدھی عمر کا سرمایہ
وہ کن آنکھوں پر صرف ہوا؟
وہ کن چہروں نے خرچ کیا؟
وہ کن ہاتھوں میں چلا گیا؟
وہ کن قدموں میں ڈھیر ہوا؟
وہ کن سفروں میں لٹوایا؟
میں کن رستوں کی نذر ہوا؟
میں کہاں گیا ؟ میں کہاں رہا؟
مجھے کچھ بھی یاد نہیں پڑتا
مجھے میں بھی یاد نہیں پڑتا
میں بیس برس کے جسم میں تھا
پچیس برس کی نیند میں تھا
اب آنکھ کھلی تو سوچتا ہوں
کس بوڑھے جسم میں جاگا ہوں؟
کہاں اپنی تھکن اتاری ہے؟
کس خواب نے مجھ کو بسر کیا
کہاں آدھی عمر گزاری ہے
میں کیسے لگاؤں اندازہ؟
میں کہاں دھڑوں یہ آوازہ؟
پچیس برس کی دستک ہے
پچاس برس کا دروازہ
میں سوچ سوچ کے ہار گیا
میں کیسے وقت کے پار گیا
اس پار سے مڑ کر دیکھا تو
معلوم پڑا اور مجھ پہ کھلا
میں آپ ہی اپنی دستک تھا
میں آپ ہی اپنا دروازہ
انجم سلیمی
No comments:
Post a Comment