Saturday, May 24, 2014

عجب دن تھے محبت کے 
عجب موسم تھے چاہت کے 
کبھی گر یاد آجائیں
تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ہیں
کسی کی یاد میں راتوں کو اکثر جاگنا معمول تھا اپنا
کبھی گر نیند آجاتی تو ہم یہ سوچ لیتے تھے 
ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا
ابھی سویا نہیں ہو گا
ابھی ہم بھی نہیں روتے 
ابھی ہم بھی نہیں سوتے
سو پھر ہم جاگتے تھے اور اُس کو یاد کرتے تھے
اکیلے بیٹھ کر ویران دل آباد کرتے تھے
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں اکیلا چاند ہوتا تھا
جو اُس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا
فلک پر رقص کرتے انگنت روشن ستاروں کو
جو ہم ترتیب دیتے تھے
تو اُس کا نام بنتا تھا
ہم اگلے روز جب ملتے
تو گزری رات کی ہر بے کلی کا ذکر کرتے تھے
ہر اک قصہ سناتے تھے
کہاں کس وقت اور کیسے
یہ دل دھڑکا بتاتے تھے
میں جب کہتا
کہ جاناں آج تو میں رات کو اک پل نہیں سویا
تو وہ خاموش رہتی تھی
پر اُس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں
اچانک بول اٹھتی تھیں
میں جب اُس کو بتاتا تھا
کہ میں نے رات کو روشن ستاروں میں تمہارا نام دیکھا ہے
تو وہ کہتی
رضی تم جھوٹ کہتے ہو
ستارے میں نے دیکھے تھے
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام لکھا تھا
عجب معصوم لڑکی تھی
مجھے کہتی تھی لگتا ہے کہ اب اپنے ستارے مل ہی جائیں گے
مگر اُس کو خبر کیا تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کی کہانی میں
محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے

رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...