Sunday, June 15, 2014

رخصتی

کسے خبر ہے کہاں ملیں گے
دمکتے چہرے چمکتی آنکھیں
سماعتیں ڈھونڈتی رہیں گی
شگفتہ لہجے ذہین آنکھیں
یہی ہے رسم جہاں عزیزو
کہ چند لمحوں کو ہم سفر ہو
نا پھر تمہاری ہمیں خبر ہو
نا پھر ہماری تمہیں خبر ہو
جو یوں بسر ہو تو کیوں بسر ہو
کہ سر پہ یادوں کا اک شجر ہو
یہی شجر گو یا اپنا گھر ہو
یہیں پہ شب ہو یہیں سحر ہو
وہ شوخ زندہ دلوں کی بستی
شریر لڑکوں کی ایک ٹولی
وہ لڑکیوں کا حسین جمگھٹ
اور ان میں سب سے نمایاں لڑکی
جو دل میں یکسر اتر گئی تھی
حیات جیسےسنور گئی تھی
کہا تصور میں جس کو دلہن
وہ خواب میں رنگ بھر گئی تھی
بس اک تصادم کے بعد باہم
قریب آتے گئے تھے ہم تم
ہمیں خبر ہی نہیں تھی ہم دم
ہمارا قصہ ہے قصہءِ غم
جسے محبت سمجھ رہے تھے
جسے حقیقت سمجھ رہے تھے
وہ ایک وقتی سی دوستی تھی
جسے رفاقت سمجھ رہے تھے
مگر یہ ساری خیالی باتیں
اُداس باتیں وبالی باتیں
جہاں بھی جاؤ گی خوش رہو گی
ہمارا کیا ہے بنالی باتیں
ہماری باتوں کی بات ہی کیا
جو نارسا ہو وہ ہاتھ ہی کیا
ہمارا سنجوگ لمحے بھر کا
جو چھوٹ جائے وہ ساتھ ہی کیا
چلو کے سب لوگ منتظر ہیں
تمھارے ماتھے سجائیں ٹیکہ
ذرا ہتھیلی پہ اک نظر ہو
چمک رہی ہے عروس ریکھا
کبھی ہمارا خیال آئے
تو زیر لب نام گنگنانا
عجیب تھا وہ یہ دل میں کہنا
اور آپ ہی آپ مسکرانا

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...