Saturday, September 6, 2014

رات دن ہجر کی وحشت بھی نہیں رکھنی ہے
کسی سے اب اتنی محبّت بھی نہیں رکھنی ہے

جس کا جی چاہے ہمیں توڑ کے ٹکڑے کردے
اس قدر نرم طبیعت بھی نہیں رکھنی ہے

دو چار سال کے رشتوں سے ہمیں کیا حاصل
ایک دو پل کی رفاقت بھی نہیں رکھنی ہے

جس سے بکھریں تو سمبھلنے میں زمانے لگ جایئں
ایسے لوگوں سے مروّت بھی نہیں رکھنی ہے

کیا عجب حال ہے چاہت کے طلبگاروں کا
شوق بکنے کا ہے قیمت بھی نہیں رکھنی ہے

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...