رات دن ہجر کی وحشت بھی نہیں رکھنی ہے
کسی سے اب اتنی محبّت بھی نہیں رکھنی ہے
جس کا جی چاہے ہمیں توڑ کے ٹکڑے کردے
اس قدر نرم طبیعت بھی نہیں رکھنی ہے
دو چار سال کے رشتوں سے ہمیں کیا حاصل
ایک دو پل کی رفاقت بھی نہیں رکھنی ہے
جس سے بکھریں تو سمبھلنے میں زمانے لگ جایئں
ایسے لوگوں سے مروّت بھی نہیں رکھنی ہے
کیا عجب حال ہے چاہت کے طلبگاروں کا
شوق بکنے کا ہے قیمت بھی نہیں رکھنی ہے
No comments:
Post a Comment