ایک عمر تلک اشک فشانی میں رہا ہے
اے عشق تیرا درد روانی میں رہا ہے
یہ چھوڑ میرے ساتھ کبھی تھا کہ نہیں تھا
وہ شخص مگر میری کہانی میں رہا ہے
اک ہجر تیرے بعد رگِ جاں میں اُتر کر
تا عمر پھر الفاظ و معانی میں رہا ہے
صحرا سے تیرے دل کی گزر گاہ تلک دوست
دل روز نئی نقل مکانی میں رہا ہے
وہ ساتھ نہیں میرے مگر سچ ہے یہ بھی
وہ شخص میری آنکھ کے پانی میں رہا ہے
No comments:
Post a Comment