Sunday, December 28, 2014

رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی
گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی
نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی
چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے
آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے
جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر
کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں
سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے
چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے
عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی
اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے
شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں
زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے
وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں
حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے

فرحت عباس شاہ


No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...