Sunday, December 28, 2014

سارے وعدوں کو بھُلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
میں تمہیں چھوڑ کے جا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

یوں ہی زحمت نہ کرو تُم کہ میں اپنی خاطر
چائے میں زہر ملا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

تم جو ہر موڑ پہ کہہ دیتے ہو اللہ حافظ
فیصلہ میں بھی سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

وہ پرندہ جو اُڑا ہے میرا پنجرہ لے کر
میں اُسے مار کے لا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

تم نے تو بات کہی دل کو دکھانے والی
اس پہ میں شعر سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

شرم آئے گی تمہیں ورنہ تمہاری باتیں
میں تمہیں یاد دلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

ریحانہ قمر

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...