Friday, January 23, 2015

Tark e Muhobat Kar Bethay

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے

ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے

ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے


ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے

صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے

صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے

میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے

اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...