ہماری ہستی قائم رکھنے والے پر پابندی عائد ہو گئی ہے
اب وہ حروف میں نہیں سمائے گا
آئندہ کبھی سامنے نہیں آئے گا
سو میرے لفظو
آو کہ آج شب بیداری کریں! گریہ زاری کریں
سارے کے سارے احساس بہا دیں
ہونے کی آگ بجھا دیں
کل سے ویسے بھی ہمیں چپ رہنا ہے
اپنے اندر میں بند رہنا ہے
یا بہتر ہے کہ ایسا کرتے ہیں
آج کی رات زندگانی کرتے ہیں
آخری بارہی سہی مگر اپنی من مانی کرتے ہیں
آو! آج مست ہو جائیں۔ ۔ ۔
ُاس کا بیاں۔ ۔ ۔ ُاس کا عکس ہو جائیں
ِاس سے پہلے کہ وہ کہیں کھو جائے
آو ہم ’’وہ‘‘ ہو جائیں !
پھر دیکھتے ہیں کوئی ُاسے کیسے مٹائے گا۔ ۔ ۔
یہ زمانہ ؟ ِاس میں کہاں ہے دم کہ ہم کو دبائے گا۔ ۔ ۔
میرے لفظو! آو‘ آج اس کے لئے ایسی نظم ہو جائیں
کہ آنے والا ہر لمحہ خاموش رہ کر بھی گنگنائے گا
ب۔ف۔ک
No comments:
Post a Comment