Sunday, January 4, 2015

وہ شکل وہ لالے کی سی کیاری نہیں بھولے
اگبور میں جو شام گزاری نہیں بھولے

صورت تھی کہ ہم جیسے صنم ساز بھی گم تھے
مورت تھی کہ ہم جیسے پجاری نہیں‌ بھولے

اب اس کا تغافل بھی گوارا کہ ابھی تک
ہم ترکِ ملاقات کی خواری نہیں بھولے

یاروں کی خطاؤں پہ نظر ہم نے نہ رکھی
اور یار کوئی بھول ہماری نہیں بھولے

خلعت کے لئے حرف کا سودا نہیں کرتے
کچھ لوگ ابھی وضع ہماری نہیں بھولے

دانے کی ہوس لا نہ سکی دام میں مجھ کو
یہ میری خطا میرے شکاری نہیں بھولے

ہم اپنے تئیں لاکھ زِخود رفتہ ہوں لیکن
یوں ہے کہ کوئی بات تمہاری نہیں ‌بھولے

اک لبعتِ ہندی نے فراز اب کے لکھا ہے
رادھا کو کبھی کرشن مراری نہیں بھولے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...