تمام دکه ہے
ہمیں خبر ہے
تمام دکه ہے
یہ زندگی کو جو آسمانوں کی وسعتوں سے
ہزار صدیوں سے مل رہا ہے
پیام دکهہ ہے
جو کار زار زوال ہستی کو
دھوپ چھاؤں کی آہٹوں سے چلا رہا ہے
نظام دکه ہے
سحر تو اک مختصر سا غم ہے
طویل دن کی حویلیوں کے
جو راستوں میں ٹهہر گئی ہے
وہ شام دکه ہے
یہ شام دکه ہے
کہ اس کی شہ پر کئی دنوں سے
مسافران ابد کا ایسے فراق آثار راستوں پر
سفر تو خیر ایک المیہ ہے
قیام دکهہ ہے
ہمیںخبر ہے تمام دکه ہے
یہ آس دکه ہے نراس دکه ہے
اداسیوں کا لباس دکهہ ہے
یہ تشنگی جو عذاب بن کر ٹهہر گئی ہے
بدن کے بوسیدہ ساحلوں پر
تو اس کا عہد دوام دکهہ ہے
یہ شور کرتی ہوا کا سارا خرام دکه ہے
ہمیں خبر ہے
تمام دکه ہے
یہ تم محبت نباہتے ہو
تو اس محبت کا نام دکه ہے
یہ وصل موسم جو اک مسلسل مغالطہ ہے
تو اس رفاقت کا نام دکهہ ہے
اور ایسی وحشت نما فضا میں
خموش رہنا بهی اک سزا ہے
مگر کسی سے کلام دکه ہے
ہمیں خبر ہے
تمام دکه ہے
نوشی گیلانی
No comments:
Post a Comment