Sunday, January 4, 2015

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت
وگرنہ ترک تعلق کی صورتیں تھیں بہت

ملے تو ٹوٹ کے روئے ، نہ کھل کے باتیں کیں
کہ جیسے اب کے دلوں میں کدورتیں تھیں بہت

بھلا دیے ہیں ترے غم نے دکھ زمانے کے
خدا نہیں تھا تو پتھر کی مورتیں تھیں بہت

دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت

فراز دل کو نگاہوں سے اختلاف رہا
وگرنہ شہر میں ہم شکل صورتیں تھیں بہت

احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...