Saturday, January 3, 2015

جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی

نہ توقع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی

نہ تکلف نہ احتیاط نہ زعم
دوستی کی زبان سادہ تھی

جب بھی چاہا کہ گنگناؤں اسے
شاعری پیش پا فتادہ تھی

لعل سے لب چراغ سی آنکھیں
ناک ستواں جبیں کشادہ تھی

حدتِ جاں سے رنگ تانبا سا
ساغر افروز موجِ بادہ تھی

زلف کو ہمسری کا دعویٰ تھا
پھر بھی خوش قامتی زیادہ تھی

کچھ تو پیکر میں‌ تھی بلا کی تلاش
کچھ وہ کافر تنک لبادہ تھی

اپسرا تھی نہ حور تھی نہ پری
دلبری میں مگر زیادہ تھی

جتنی بے مہر، مہرباں اتنی
جتنی دشوار ، اتنی سادہ تھی

اک زمانہ جسے کہے قاتل
میرے شانے پہ سر نہادہ تھی

یہ غزل دین اس غزال کی ہے
جس میں‌ہم سے وفا زیادہ تھی

وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی


احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...