Sunday, January 4, 2015

مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں

وطن سے دُور بھی آزادیاں نصیب کسے
قدم کہیں بھی ہوں زنجیر گھر کی دیکھتے ہیں

اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
یہ سادہ لوح کی تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں

کوئی تو زخم اسے بھولنے نہیں دیتا
کوئی تو یاد عناں گیر، گھر کی دیکھتے ہیں

ہم ایسے خانہ بر انداز، کنج غربت میں
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

بنائے دل ہے کسی خوابگاہ زلزلہ پر
سو اپنی آنکھوں سے تقدیر گھر کی دیکھتے ہیں

فراز جب کوئی نامہ وطن سے آتا ہے
تو حرف حرف میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...