" صدق صفائی"
"دھیان سے بیٹا
سڑک کنارے گٹر کا ڈھکّن کھلا ھوا ھے
ڈھکّن کوئی لے بھاگا ھے
دو اینٹیں تو وہاں کسی نے رکھ دی ھیں
پر شام کا وقت ھے
اور گلی میں
مَیں نے تم کو پہلی بار ھی دیکھا ھے
دھیان سے جانا "
اُس نے بزرگ کو پیار سے دیکھا
سر کو تابع فرمانی کی جنبش دے کر شکریہ بولا
اور کنارے سے کچھ ھٹ کر چلتے چلتے
گٹر پہ پہنچا
کھڑے کھڑے ھی اندر جھانکا
دیکھوں تو کتنا گہرا ھے
نظر گٹر کے اندر پہنچی
اور صدا سینے سے آئی
" کیا دیکھا ھے ؟
گٹر کے اندر یا من اندر ؟؟
گٹر کے گندے پانی سے بدبو آتی ھَے ؟؟
وہ جو ایک گٹر سوچوں کا کھلا ھوا ھے
اس کا سوچا ؟؟
کب سے یونہی کھلا پڑا ھے
کیسی کیسی روشن سوچیں اور ارادے
نفرت اور تعصب کے اس مین ھول میں گر کے خود کو ھار چکے ھیں
اُس سے کبھی بدبو نہیں آئی ؟؟"
سوچ نہیں تھی
برقی رو تھی
جس نے اس کے پورے وجود کو توڑ دیا تھا
اس سے قبل کہ وہ رو پڑتا
شانے پر اک نرم شفیق سی دستک جاگی
بابا جی نے پیار سے پوچھا
" کیا ھوا بیٹا ؟
کب سے یہیں پر کھڑے ھوئے ھو
گھر نئیں جانا ؟؟"
اُس نے بزرگ کے ھاتھ کو چوما
پیار سے بولا
" جی بابا جی
گھر جانا ھے
سوچ رھا ھوں
برگد اور بزرگ بھی کتنے پیارے سوھنے ھوتے ھیں
میاں محمّد بخش کی باتیں
خسرو جی کے پریم کی ٹھنڈک
خواجہ فرید کے سوز کا مرھم
اور کبیر کے دوھوں کا رس
سب کچھ انت اخیر سا کیوں ھے
آخر عشق فقیر سا کیوں ھَے
صاف سمجھ میں آج آیا ھے
یہ سب اتنے پیارے کیوں تھے
اِن کے اندر "شر" جو نہیں تھے
اِن کے من میں گٹر نہیں تھے
جی بابا جی
میں نے سنا تھا
گہرائی میں جھانکنے والے اکثر خود کو پا جاتے ھیں
اب گہرائی دریا کی ھو یا ھو گٹر کی
اپنی اپنی قسمت ھے بس
گھر جاتا ھوں"
بابا جی نے پیار سے اُس کا ماتھا چوم کے اتنا بولا
خیر ھو بیٹا ۔۔۔۔ !!
علی زریون
No comments:
Post a Comment