تیری مجبوریوں سے واقف ہوں
تو نے پہلے بھی کئی بار مجھے
ایسے دیکھا تھا کہ جیسے مجھے دیکھا ہی نہ ہو
ایسے سوچا تھا کہ جیسے مجھے سوچا ہی نہ ہو
ایسے چھوڑا تھا مجھے راہ میں اکثر تونے
جیسے مجھ سے کوئی رشتہ، کوئی ناتا ہی نہ ہو
جیسے تونے مجھے، میں نے تجھے چاہا ہی نہ ہو
مصلحت اوڑھ کے چاہت کو چھپائے رکھا
اپنے ہر راز کو سینے سے لگائے رکھا
اور میں جو تیری مجبوریوں سے واقف تھا
تجھ کو دیوی سا خیالوں میں سجائے رکھا
ہر نشانی کو تیری میں نے مقدس جانا
تیرے ہر عکس کو ۤآنکھوں میں بسائے رکھا
مجھ کو معلوم نہیں ہجر کے قاتل لمحے
تونے کس آگ میں جل جل کے گذارے ہوں گے
کبھی لفظوں میں تھکن تونے سمیٹی ہوگی
کبھی کاغذ پہ فقط اشک اتارے ہوںگے
یہ بھی ممکن ہے کہ گذرا ہوا لمحہ لمحہ
جس کو میں آج بھی سینے سے لگا رکھتا ہوں
تیرے نزدیک فقط یاد کی پر چھائی ہو
دور کی جیسے تیری اس سے شناسائی ہو
جس طرح دھوپ دسمبر کی دریچے سے لگی
بے ارادہ کہیں آنگن میں اتر آئی ہو
جیسے محفل میں کسی شخص کی تنہائی ہو
تیری مجبوریوں سے واقف ہوں
اس لئے میں تجھے الزام نہیں دے سکتا۔۔
اپنی چاہت کو کوئی نام نہیں دے سکتا۔۔
ایک پیغام ہے تیرے لئے یہ خاموشی
اور تو کوئی بھی پیغام نہیں دے سکتا
تیرے لفظوں ،تیرے اشکوں،تیری آنکھوں کی قسم
ضبط اب ساتھ کسی گام نہیں دےسکتا
یہ کہانی تو میرے ساتھ چلے گی عاطف
اس کہانی کو میں انجام نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment