انا پہ چوٹ پڑے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
دھواں سا دل سے اٹھے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
میرے لئے کبھی مٹی پہ سردیوں کی ہوا
تمہارا نام بھی لکھے تو کون دیکھتا ہے ؟
اجاڑ گھر کے کسی بے صدا دریچے میں
کوئی چراغ جلے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
ہجوم شہر سے ہٹ کر حدود شہر کے بعد
وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
جس آنکھہ میں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب
وہ آنکھہ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
ہجوم درد میں کیا مسکرائیے کہ یہاں
خزاں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
ملے بغیر جو مجھہ سے بچھڑ گیا "محسن"
وہ راستے میں رکے بھی تو دیکھتا ہے ؟؟
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment