Friday, May 15, 2015

Hum barry hogaey

ہم بڑے ہوگئے
مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے
سب کے سب کھوگئے
ہم بڑے ہوگئے
ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں
بوجھ اوروں کا خود ہی اُٹھاتے رہیں
اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں
محفلوں میں مگرمسکراتے رہیں
کتنے لوگوں سے اب مختلف ہوگئے
ہم بڑے ہوگئے
اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی
زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی
وہ جوہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں
ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی
جو تھپک کرسلاتے تھے خود سوگئے
ہم بڑے ہوگئے
ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی
جانے کب آئی اورکب جوانی ہوئی
دیکھتےدیکھتےکیاسےکیا ہوگئے
جوحقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی
منزلیں مل گئیں
ہمسفر کھو گئے
ہم بڑے ہو گئے

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...