اس طرح کی باتوں میں
زندگی کی راہوں میں
بارہا یہ دیکھا ھے
صرف سن نہیں رکھا
خود بھی آزمایا ھے
تجربوں سے ثابت ھے
جو بھی سنتے آئے ہیں
اس کو ٹھیک پایا ھے
زنگی کی راہوں میں
اس طرح کی باتوں میں
منزلوں سے پہلے ہی
ساتھ چھوٹ جاتےہیں
لوگ روٹھ جاتے ہیں
یہ تمہیں بتا دوں میں
چاہتوں کے رشتوں میں
پھر گرہ نہیں لگتی
لگ بھی جائے تو اس میں
وہ کشش نہیں رہتی
ایک پھیکا پھیکا سا
رابطہ تو ہوتا ھے
تازگی نہیں رھتی
زندگی نہیں ملتی
بات وہ نہیں بنتی
لاکھ بار مل کر بھی
دل کبھی نہیں ملتے
یاد کے دریچوں میں
ذہن کے جھروکوں میں
تتلیوں کے رنگوں کے
پھول پھر نہیں کھلتے
اسلیے میں کہتا ہوں
اس طرح کی باتوں سے
اجتناب کرتے ہیں
اس طرح کے رشتوں میں
احتیاط کرتے ہیں
(امجداسلام امجد)
یہ کلام معین نظامی صاحب کا ہے، امجد صاحب کا نہیں
ReplyDelete