Wednesday, November 18, 2015

Ajal sy Khauf zada zeest sy darey huey log

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
-
یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
-
نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ
-
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
-
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
-
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...