خوف ہی ایسے ہمارے دل پہ طاری ہو گئے
جو ضروری لوگ تھے وہ اختیاری ہو گئے
-
چل رھے ھیں شمع لے کر ہاتھ میں سورج کےساتھ
روشنی کے لوگ کچھ اتنے بھکاری ہو گئے
-
مل گیا آخر مجھے اپنی وفاؤں کا صلہ
اس کی آنکھوں سے بھی آخر اشک جاری ہو گئے
-
یہ ہوا پھولوں سے خوشبو اڑ گئی رنگوں کے ساتھ
یہ ہوا چہرے سبھی رنگوں سے خالی ہو گئے
-
ڈھونڈتا ھے کس لئے لوگوں میں رسمِ دوستی
جو ترے احباب تھے وہ کاروباری ہو گئے
No comments:
Post a Comment