Wednesday, 18 November 2015

Khauf Hi aisay Humary Dil py taari hogey

خوف ہی ایسے ہمارے دل پہ طاری ہو گئے
جو ضروری لوگ تھے وہ اختیاری ہو گئے
-
چل رھے ھیں شمع لے کر ہاتھ میں سورج کےساتھ
روشنی کے لوگ کچھ اتنے بھکاری ہو گئے
-
مل گیا آخر مجھے اپنی وفاؤں کا صلہ
اس کی آنکھوں سے بھی آخر اشک جاری ہو گئے
-
یہ ہوا پھولوں سے خوشبو اڑ گئی رنگوں کے ساتھ
یہ ہوا چہرے سبھی رنگوں سے خالی ہو گئے
-
ڈھونڈتا ھے کس لئے لوگوں میں رسمِ دوستی
جو ترے احباب تھے وہ کاروباری ہو گئے

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...