ان کی سازش تو ہے ــ رات باقی رہے
عمر بھر ــ ظلم کی بات باقی رہے
`-
شہر جلتا رہے ـ ـ شہر کی فکر کیا؟
قاتل شہر کی ــ ذات باقی رہے
-
یہ جو ظاہر ہیں بازو ـ ـ یہ کٹتے رہیں
وہ جو خفیہ ہے ــ وہ ہاتھ باقی رہے
-
زخم دل کی ـ ـ نمائش ضروری نہیں
لب پہ ــ حرف مناجات باقی رہے
-
کوئے دلدار میں ـ ـ بکنے والے بہت
سیم و زر کی ــ یہ برسات باقی رہے
-
شوق سے توڑ دیجے تعلق ـ ـ مـــگر
راستے کی ملاقات باقی رہے
-
اک ستمــــگر کی ضد ہے ـ ـ کہ "محسن" یہاں
امن بھی ــ ظلم کے ساتھ باقی رہے
-
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment