تو کہاں چلی گئی تھی
تیرا بے قرار انشاء
تیری جستجو میں حیراں
تیری یاد میں سلگتا
کبھی بستیوں بنوں میں
کبھی سوۓ کوہ صحرا
کبھی سورشوں میں کھویا
کبھی بے کس تنہا
لیے دید کی تمنا
بنا آرزو سراپا
تجھے ہر جگہ پکارا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا
تو کہ روح زندگی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی
-
میری حیرتوں کا روما
میری حسرتوں کی دلی
میری وحشتوں کا صحرا
میرا بلدۂِ کراچی
مجھے اور کون جانے
یہی دے تو دے گواہی
کہ حسین صورتوں سے
یہاں ہر گلی بھری تھی
مگر ایک یہ دیوانہ
تیرا وحشیِ یگانہ
جسے زندگی گوارا
کبھی چھوڑ کر گیا ہے
تیرا آستاں پرانا
جہاں اوائل ِ جوانی
سرِ محفل ِ شاہانہ
کبھی تو اسے ملی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی
-
کبھی ساونوں سے پوچھو
کبھی بادلوں سے پوچھو
تھا جو حال موسموں کا
تھا جو رنگ وحشتوں کا
کبھی یاس کے جلو میں
کبھی آس کے جلو میں
نہ وہ محفل ِ شاہانہ
نہ کہیں کا آنا جانا
ے سات ساگروں کے
جہاں لوگ ہیں انوکھے
ہمیں جی سے یوں بسارا
ہمیں یاد سے اتارا
یہاں لوٹ کر بھی جانی
نہ ملن ہوا گوارا
یہ جو ماہ و سال گزرے
یہ عجیب حال گزرے
جھے یاد تو دلائیں
تمہیں یاد بھی تو آئیں
کبھی عہد جو کیے تھے
ہمیں قول جو دیے تھے
کبھی کانپتے لبوں سے
کبھی اشک کی زباں میں
کبھی گنجَ گلستان میں
کبھی کوئے رہرواں میں
کسی دوست کے مکاں میں
تیری زندگی سلامت مگر ایک روز جانی
تیرا ساتھ چھوڑ دے گی
تیری بے آماں جوانی
تیرے گیسوؤں کی چاندی
با زبانِ بے زبانی
جو سنے گی کہانی
تو یہ بے وفا زمانہ
تیر ے جی پہ بار ہوگا
نہ دلون کی قسمتوں پر
تجھے اختیار ہوگا
نہ جوان محفلوں میں
تیرا انتظار ہوگا
نہ کوی وفا کو خواہاں
نہ گلہ گزار ہوگا
مگر ایک یہ دوانہ یہ پرانا پیت روگی
تیرے نام پہ بانا ہے
جو کوئی فقیر جوگی
تجھے ڈھوڈھتا ملے گا
تجھے جستجو جو ہو گی
-
کبھی بستیوں، بنوں میں
کبھی سوئے کوہ و صحرا
کبھی شور شوں میں کھویا
کبھی بے کس و تنہا
لیے دید کی تمنا
بنا آرزو سراپا
تجھے ہر جگہ پکارا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا
تُو کہ روحِ زندگی تھی
تُو کہاں چلی گئی تھی
غم عاشقی نبھاتا
یا اداس گیت گاتا
میری شاعری کی رانی
میری حاصلِ جوانی
میری جانِ زندگانی
تو کہاں چلی گئی تھی
تُو کہاں چلی گئی تھی
-
ابن انشا
No comments:
Post a Comment