سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
میں بے زماں بے مکاں اداسی کے کھردرے ہاتھ سے
تراشیدہ "سنگ زادہ "
میرے بدن پر قبائے سادہ
مسافتوں سے اٹا لبادہ
میں خواہشوں کے ہجوم میں بھی
خود اپنے خوابوں کا آدمی ہوں
میں کتنی صدیوں کی بے بسی ہوں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
میں اجنبی ہوں
میں اجنبی ہوں ، خود اپنے بیتے ہوئے مہ و سال کی خراشوں سے
اجنبی ہوں
میرے قبیلے پہ
ہجرتوں کے سفر میں
شبخوں ...ہوا نے مارا
میرے پیش و پس دھوپ ہی دھوپ ہے
میرے یمین ویسار لاشوں کے سرخ ٹیلے
میں کس کس کا ماتم کروں عزیزو ؟
میں کس کو آواز دوں ...کہ میں تو
تمام لاشوں سے اجنبی ہوں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
کہ میرا سایا
تمہاری رنگوں میں نہائی صبحیں
چبا نہ ڈالے
کہ میرا سایا
کسی کھنڈر میں پرانی محراب کا دیا ہے
نہ میرے سینے میں روشنی ہے
نہ میرے لب پہ کوئی دعا ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
میری کٹی انگلیوں کی زد میں
قلم کی جنبش تراشتی ہے
تمام نوحے اداسیوں کے
تمام لہجے
اجاڑ بستی کے باسیوں کے
-
مجھے نہ دیکھو کہ میری آنکھیں
اجاڑ صدیوں کے زائچے ہیں
کہ میرے ہونٹوں پہ
موت کو پھانکتی ہواؤں کے ذائقے ہیں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
میں اپنی میت کا آپ وارث
میں اپنے بے آسرا لہو کا
خود آپ "برزخ "
میرے نفس میں اترتی صبحوں
بکھرتی شاموں کی
خود کشی ہے
حذر کرو میری قربتوں سے
کہ میرا ماحول دوزخی ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
مجھے نہ چھیڑو
نہ میرے دکھ کا سفر کرو تم
ہوا کو اتنی خبر کرو تم
ہوا جو مجھ سے الجھ رہی ہے
ہوا جو مٹی میں دفن ہوتی ہوئی اداسی
سے
اجنبی ہے
ہوا جو رستے مٹا رہی ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو
مجھے نہ دیکھو
مجھے نہ چھیڑو
-
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment