یہ عجیب لذت درد تھی کہ جو آکے دل میں سما گئی
تیرے آنسوں کو سمیٹ کر میں تو جگنوں میں نہا گئی
میری پور پورمیں بھر گئیں یہ عجیب نرم سی بجلیاں
تیرے اشکِ درد کی کہکشاں میرے ہاتھ پھر سے جلا گئی
مجھے آج تک نہیں بھولتے تیری چاہتوں کے وہ ذایقے
کہ جو تو ملا تو لگا مجھے سرِعرش میری دعا گئی
کوئی مہرباں سی یاد تھی دبے پاوں آکے پلٹ گئی
مگر میرے مہکے وجود سے اپنے پھول مجھ میں کھلا گئی
کوئی دشت دشت وجود تھا مگر ابر بن کے برس گیا
کہیں سبز پیڑ کی چھاؤں بھی میری تشنگی کو بڑھا گئی
میرے ہاتھ پر ابھی نقش ہیں تیری اُنگلیوں کے نشان تک
تو نے جب چھوا تو لگا مجھے کوئی آگ مجھ میں سما گئی
تیرا آندھیوں سا مزاج تھا تو بضد تھا مجھ کو بجھائے گا
میں چراغ تھی میری روشنی تیرے بام و در کو سجا گئی
No comments:
Post a Comment