Sunday, 2 February 2014

یہ عجیب لذت درد تھی کہ جو آکے دل میں سما گئی
تیرے آنسوں کو سمیٹ کر میں تو جگنوں میں نہا گئی

میری پور پورمیں بھر گئیں یہ عجیب نرم سی بجلیاں
تیرے اشکِ درد کی کہکشاں میرے ہاتھ پھر سے جلا گئی

مجھے آج تک نہیں بھولتے تیری چاہتوں کے وہ ذایقے
کہ جو تو ملا تو لگا مجھے سرِعرش میری دعا گئی

کوئی مہرباں سی یاد تھی دبے پاوں آکے پلٹ گئی
مگر میرے مہکے وجود سے اپنے پھول مجھ میں کھلا گئی

کوئی دشت دشت وجود تھا مگر ابر بن کے برس گیا
کہیں سبز پیڑ کی چھاؤں بھی میری تشنگی کو بڑھا گئی

میرے ہاتھ پر ابھی نقش ہیں تیری اُنگلیوں کے نشان تک
تو نے جب چھوا تو لگا مجھے کوئی آگ مجھ میں سما گئی

تیرا آندھیوں سا مزاج تھا تو بضد تھا مجھ کو بجھائے گا
میں چراغ تھی میری روشنی تیرے بام و در کو سجا گئی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...