__ ہمسفر __
تمہارا نام کچھہ ایسے میرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھیری رات میں جیسے
اچانک چاند بادل کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں میں روشنی سی پھیل جاتی ہے
کلی جیسے لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مسکراتی ہے
بدلتی رت
کسی مانوس سی آہٹ کی ڈالی لے کے چلتی ہے
تو خوشبو باغ کی دیوار سے روکے نہیں رکتی
اسی خوشبو کے دھاگے سے میرا ہر چاک سلتا ہے
تمھارے نام کا تارا
میری سانسوں میں کھلتا ہے
تمہیں میں دیکھتا ہوں جب
سفر کی شام سے پہلے
کسی الجھی ہوئی گمنام سی چنتا کے جادو میں
کسی سوچے ہوۓ بے نام سے لمحے کی خوشبو میں
کسی موسم کے دامن میں ، کس خواہش کے پہلو میں
تو اس خوش رنگ منظر میں
تمہاری یاد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ایسے میری ہر راہ کے ہمراہ چلتا ہے
کہ آنکھوں میں ستاروں کی گزر گاہیں سی بنتی ہیں
دھنک کی کہکشائیں سی
تمھارے نام کے ان خوشنما حرفوں میں ڈھلتی ہیں
کہ جن کے لمس سے
ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہیں
تمھارے خواب کا رشتہ
میری نیندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
میرا ہر چاک سلتا ہے
" تمھارے نام کا تارا مری راتوں میں کھلتا ہے "
( امجد اسلام امجد )
No comments:
Post a Comment