Tuesday, 18 February 2014

Humsafar

__ ہمسفر __



تمہارا نام کچھہ ایسے میرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھیری رات میں جیسے
اچانک چاند بادل کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں میں روشنی سی پھیل جاتی ہے
کلی جیسے لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مسکراتی ہے
بدلتی رت
کسی مانوس سی آہٹ کی ڈالی لے کے چلتی ہے
تو خوشبو باغ کی دیوار سے روکے نہیں رکتی

اسی خوشبو کے دھاگے سے میرا ہر چاک سلتا ہے
تمھارے نام کا تارا
میری سانسوں میں کھلتا ہے
تمہیں میں دیکھتا ہوں جب
سفر کی شام سے پہلے
کسی الجھی ہوئی گمنام سی چنتا کے جادو میں
کسی سوچے ہوۓ بے نام سے لمحے کی خوشبو میں
کسی موسم کے دامن میں ، کس خواہش کے پہلو میں
تو اس خوش رنگ منظر میں
تمہاری یاد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے

اور پھر ایسے میری ہر راہ کے ہمراہ چلتا ہے
کہ آنکھوں میں ستاروں کی گزر گاہیں سی بنتی ہیں
دھنک کی کہکشائیں سی
تمھارے نام کے ان خوشنما حرفوں میں ڈھلتی ہیں
کہ جن کے لمس سے
ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہیں
تمھارے خواب کا رشتہ
میری نیندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
میرا ہر چاک سلتا ہے

" تمھارے نام کا تارا مری راتوں میں کھلتا ہے "

( امجد اسلام امجد )

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...