سندیسہ
ہمارے پاؤں میںجو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑتے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنائیں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
در لب بوسۂ اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میںہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آئینے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوںکو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آ کر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموںکے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment