ایک ہی بارش برس رہی ہے چاروں جانب
بام ودر پر، شجرِ ہجر پر
گھاس کے اُجلے نرم بدن اور ٹین کی چھت پر
شاخ شاخ میں اُگنے والے برگ و ثمر پر
لیکن اِس کی دل میں اُترتی مگہم سی آواز کے اندر
جانے کتنی آوازیں ہیں
قطرہ قطرہ دل میں اُترنے پھیلنے والی آوازیں
جن کو ہم محسوس تو کر سکتے ہیں لیکن
لفظوں میں دہرا نہیں پاتے
جانتے ہیں سمجھا نہیں پاتے
جیسے پت جھڑ کے موسم میں ایک ہی پیڑ پر اُگنے والے
ہر پتے پر ایسا ایک سما ہوتا ہے
جو بس اُس کا ہی ہوتا
جیسے اک ہی دھند کے اندر بجنے والے ساز اور اُن کی آواز
کھڑکی کے شیشوں پر پڑتی بوندوں کی آواز کا جادو
رِم جھم کے آہنگ میں ڈھل کر سرگوشی بن جاتا ہے
اور لہو کے خلیئے اُس کی باتیں سننے لگ جاتے ہیں
ماضی، حال اور مستقبل تینوں کے چہرے کڈ مڈ سے ہوجاتے ہیں
آپس میں کھو جاتے ہیں
چاروں جانب ایک دھنک کا پردہ سا لہراتا ہے
وقت کا پہیہ چلتے چلتے تھوڑی دیرکو تھم جاتا ہے
آج بہت دن بعد سنی ہے بارش کی آواز
آج بہت دن بعد کسی منظر نے رستہ روکا ہے
رم جھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دن بعد اچانک آنکھ یونہی بھر آئی ہے
آنکھ اور منظر کی وسعت میں چاروں جانب بارش ہے
اور بارش میں دور کہیں اِک گھر ہے
جس کی ایک ایک اینٹ پہ تیرے میرے خواب لکھےہیں
اور اُس گھر کو جانے والی کچھ گلیاں ہیں
جن میں ہم دونوں کے سائے تنہا تنہا بھیگ رہے ہیں
دروازے پر قفل پڑا ہے اور دریچے سُونے ہیں
دیواروں پر جمی ہوئی کائی میں چھپ کر
موسم ہم کو دیکھ رہے ہیں
کتنے بادل ہم دونوں کی آنکھ سے اُوجھل برس برس کر گزر رہے ہیں
ایک کمی سی ایک نمی سی، چاروں جانب پھیل رہی ہیں
کئی زمانے ایک ہی پل میں باہم مل کر بھیگ رہے ہیں
اندر یادیں سوکھ رہی ہیں
باہر منظر بھیگ رہے ہیں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment