Saturday, September 6, 2014

Rahiba

وہ کتابِ حُسن، وہ علم وادب کی طالبہ

وہ مہذب، وہ مودّب، وہ مقّدس راہبہ
کِس قدر پیرایہ پرور اور کتنی سادہ کار
کِس قدر سنجیدہ و خاموش، کتنی باوقار
گیسوئے پُرخم، سوادِ دوش تک پہنچے ہوئے
اور کچھ بِکھرے ہوئے، اُلجھے ہوئے، سمٹے ہوئے
رنگ میں اُس کے عذابِ خیرگی شامل نہیں
کیفِ احساسات کی افسردگی شامل نہیں
وہ مرے آتے ہی اُس کی نکتہ پرور خامشی
جیسے کوئی حُور بن جائے یکایک فلسفی
مجھ پہ کیا، خود اپنی فطرت پر بھی وہ کُھلتی نہیں
ایسی پُراسرار لڑکی میں نے دیکھی ہی نہیں
دُخترانِ شہر کی ہوتی ہے جب محفل کہیں
وہ، تعارف کے لیے آگے کبھی بڑھتی نہیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...