Friday, December 12, 2014

کہاں وہ نیلم پری گئی تھی
محبتوں کے حسین دن تھے
رفاقتوں کا حسیں زمانہ
وہ جب بھی کالج کے راستوں پر قدم اٹھاتی
تو اُس کی آہٹ سے کتنی مانوس دھڑکنوں کا نظام چلتا
وہ جب کتابوں کو اپنے سینے کے ساتھ رکھے ہوئے
کرش ہال سے گزرتی
تو اُس کی زلفوں کی ایک جنبش پہ
لاکھ دِل تھے جو رقص کرتے
وہ جب کبھی کھلکھلا کے ہنستی
تو نا اُمیدی کے دھُندلکوں میں
محبتوں کے دیے جلاتی
وہ جس طرف بھی نظر اُٹھاتی
ہزار دِل تہہ و بالا کرتی
گئے وہ دن پھر، گئی وہ راتیں
نئے وہ دن پھر، نئی وہ راتیں
سو ایک دن ہم بچھڑ گئے تھے
سمے کا ساگر رَواں دَواں تھا
بدلتے موسم نے مجھ کو سب کچھ بھلا دیا تھا
کئی برس بعد کل اچانک مجھے ملی تو
اُداس چہرہ، سپاٹ لہجہ
نہ وہ اَدائیں، نہ وہ تبسم
سمے کی دیمک حسین پیکر کو کھا گئی تھی
وہ وقت کے ساتھ ساتھ کتنا بدل گئی تھی
کہاں وہ نیلم پری گئی تھی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...