شام بالوں میں تو آنکھوں میں سحر رکھتا ہے
وہ بدلتے ہوئے موسم پہ نظر رکھتا ہے
تم پسِ عہدِ وفا کشتۂ غم مت ہونا
کون پوچھے گا تمہیں کون خبر رکھتا ہے
دھیان تیرا جو بھٹکتا ہے سرِ دشتِ خیال
اک جنوں ساز محبت کا اثر رکھتا ہے
باس رکھتا ہے وہ دامن میں ہر اک موسم کی
اپنے دل سے جو ہواؤں کا گزر رکھتا ہے
بس اسی کارِ مخالف نے بگاڑا منظر
ہم اِدھر رکھتے ہیں منظر، وہ اُدھر رکھتا ہے
ہم نے مانا کہ محبت نہیں اس کو اے سعد کوئی
احساس تو دل میں وہ مگر رکھتا ہے
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment