Sunday, December 28, 2014

شام بالوں میں تو آنکھوں میں سحر رکھتا ہے
وہ بدلتے ہوئے موسم پہ نظر رکھتا ہے

تم پسِ عہدِ وفا کشتۂ غم مت ہونا
کون پوچھے گا تمہیں کون خبر رکھتا ہے

دھیان تیرا جو بھٹکتا ہے سرِ دشتِ خیال
اک جنوں ساز محبت کا اثر رکھتا ہے

باس رکھتا ہے وہ دامن میں ہر اک موسم کی
اپنے دل سے جو ہواؤں کا گزر رکھتا ہے

بس اسی کارِ مخالف نے بگاڑا منظر
ہم اِدھر رکھتے ہیں منظر، وہ اُدھر رکھتا ہے

ہم نے مانا کہ محبت نہیں اس کو اے سعد کوئی
احساس تو دل میں وہ مگر رکھتا ہے

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...