پتھر ہی سہی راہ میں حائل تو رہوں گا
کچھ دیر تیرا مدِ مقابل تو رہوں گا
جب تک تیری بخشش کا بھرم کھل نہیں جاتا
اے میرے سخی میں تیرا سائل تو رہوں گا
اس واسطے زندہ ہوں سرِ مقتلِ یاراں
وابستہء کم ظرفیِ قاتل تو رہوں گا
اے تیز ہوا میرا دھواں دیکھ کے جانا
بجھ کر بھی نشانِ رہِ منزل تو رہوں گا
دشمن ہی سہی نام بھی لے گا میرا تو بھی
یوں میں تیری آواز میں شامل تو رہوں گا
جب تک میں بغاوت نہ کروں جبروستم سے
زنداں میں ہوں پابندِ "سلاسِل" تو رہوں گا
محسن زدِ اعداء سے اگر مر بھی گیا تو
معیارِ تمیزِ حق و باطل تو رہوں گا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment