Sunday, December 28, 2014

Mann angan me shehar basa hai

من آنگن میں شہر بسا ہے، شہرمیں اک دریا بہتا ہے
جس میں چاند ستارے درپن، کبھی نہ ٹوٹنے والے بندھن
کہیں نہ بھولنے والی یادیں، ٹوٹی پھوٹی کچھہ فریادیں
روشن دن اور جھلمل راتیں
لفظ ادھورے، پوری باتیں
لہروں پر اُمڈتےجزبے بہتے جائیں
کوئی کہانی کہتے جائیں
ہرے بھرے پیڑوں پر شاخیں سایوں کی زنجیر بنائیں
پون سندیسے لیے ہوئے
نئےموسم کے خوشحال پرندے 
پلکوں پر پھیلے رنگوں سے آنکھوں میں تصویر بناٰئیں
دریا میں افلاک نہائیں
اندر کے سب بھید کنارےکھلتے جائیں
من انگن میں شہر بسا ہے
شہر میں اک دریا بہتا ہے
دریا کی لہروں میں رستے
رستوں میں ان دیکھے سپنے کھلے ہوئے ہیں
خواب دھنک خوشبو اور چہرے ملے ہوئے ہیں
تیز ہوا میں دیپ سمے کے جلے ہوئے ہیں
لیکن شہر کے دروازے پر
بے خوابی کے دُکھہ سُکھہ اوڑھے
جانے کس کی آس میں آنکھیں
نیندوں کا پہرا دیتی ہیں
لیکن شہر کے دروازے پر
بے خوابی کے دُکھہ سُکھہ اوڑھے
جانے کس کی آس میں آنکھیں
نیندوں کا پہرا دیتی ہیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...