Sunday, December 28, 2014

لہو سے دل کبھی چہرے اُجالنے کے لئے
میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے

اُتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے

سخن لباس پہ ٹھہرا تو جوگیوں نے کہا
کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کےلئے

میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا 
ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے

کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے
فضا میں چاند ستارے اچھالنے کےلئے

بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کےلئے

وہ ماہتاب صفت آئینہ جبیں ”محسن”
گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کےلئے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...