بھلا تو دے گا
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر
خزاں کی رت میں آوارہ پتوں کے سنگ چلے گا
بھلا تو دے گا
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کے سنگ چلے گا
ہوا کی سرد مہری پہ چپکے چپکے
عذاب جاں کے ستم لکھے گا
ابھی تو وہ بھی اسیر غم ہے
اسی مسافت پہ گامزن ہے
ابھی تو کچھہ دن طرح وہ
شکستہ خوابوں کی کرچیوں کو
نرم ہاتھوں کی انگلیوں کے
ہاں زخمی پوروں سے جب چنے گا
تو کیا کرے گا ......؟؟
توآگے رستوں پہ آتے جاتے
جب کسی تجسس میں جب رکے گا
"مجھے یقیں ہے وہ رو پڑے گا "
مگر کہاں تک نئے دنوں کو گئے دنوں پہ وہ ٹال رکھے
گزشتہ لمحوں کی تتلیوں کو بھلا کہاں تک سنبھال رکھے ؟
ابھی تو کچھہ دن گئی رتوں رتوں کا بھرم رکھے گا
سہم سہم کر قدم رکھے گا
بھلا تو دے گا
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر
مجھے یقیں ہے
" وہ رو پڑے گا "
نوشی گیلانی
No comments:
Post a Comment