Monday, December 29, 2014

بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر 
خزاں کی رت میں آوارہ پتوں کے سنگ چلے گا
بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کے سنگ چلے گا 
ہوا کی سرد مہری پہ چپکے چپکے 
عذاب جاں کے ستم لکھے گا 
ابھی تو وہ بھی اسیر غم ہے 
اسی مسافت پہ گامزن ہے 
ابھی تو کچھہ دن طرح وہ 
شکستہ خوابوں کی کرچیوں کو 
نرم ہاتھوں کی انگلیوں کے 
ہاں زخمی پوروں سے جب چنے گا 
تو کیا کرے گا ......؟؟
توآگے رستوں پہ آتے جاتے 
جب کسی تجسس میں جب رکے گا 
"مجھے یقیں ہے وہ رو پڑے گا "
مگر کہاں تک نئے دنوں کو گئے دنوں پہ وہ ٹال رکھے 
گزشتہ لمحوں کی تتلیوں کو بھلا کہاں تک سنبھال رکھے ؟
ابھی تو کچھہ دن گئی رتوں رتوں کا بھرم رکھے گا 
سہم سہم کر قدم رکھے گا
بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر 
مجھے یقیں ہے 
" وہ رو پڑے گا "

نوشی گیلانی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...