Sunday, December 28, 2014

Tum Kiya jano

تم کیا جانو عشق میں گزرے لمحے کیا بیکار گئے
پیار تو جیون کی بازی تھی، تم جیتے ہم ہار گئے

ہجر کے جاگتے لمحو تم کو یاد ہو تو اتنا بتلاؤ
کتنے چاند نکل کر ڈوبے اور کتنے تہوار گئے

جلتی ہوئی سڑکوں پر رقصاں دھول بھرا سنّاٹا تھا
ہم جو سلگتی تنہائی کے خوف سے کل بازار گئے

جن کو آنگن آنگن سینچا موسم موسم لہو دیا
دھوپ چڑھی تو ان پیڑوں کے سائے پسِ دیوار گئے

وہ جگنو، وہ جگ مگ چہرے گلیوں کا سرمایہ تھے
اندھی صبح کی سرحد پر جو رات کی پونجی وار گئے

جس سے بغاوت کی پاداش میں میرا قبیلہ قتل ہوا
گاؤں کے اس خونی میلے میں میرے سارے یار گئے

ہم کیا جانیں یار سلیم کہ نفرت کیسی ہوتی ہے
ہم بستی کے رہنے والے شہر میں پہلی بار گئے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...