Sunday, December 28, 2014

Roozgar K silsaly


میں روزگار کے سلسلے میں
کبھی کبھی اس کے شہر جاتا ہوں
تو گزرتا ہوں اس گلی سے
وہ نیم تاریک سی گلی
اور اسی کے نکڑ پے اونگتا سا پرانا کھمبا
اسی کے نیچے تمام شب انتظار کر کے
میں چھوڑ آیا تھا شہر اس کا
بہت ہی خستہ سی روشنی کی چھڑی کو ٹیکے
وہ کھمبا اب بھی وہیں کھڑا ہے
فطور ہے یہ مگر
میں کھمبے کے پاس جا کر
نظر بچا کے محلے والوں کی
پوچھ لیتا ہوں آج بھی یہ
وہ میرے جانے کے بعد بھی
یہاں آئی تو نہیں تھی
وہ آئی تھی کیا

گلزار

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...