Saturday, January 3, 2015

راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو
منزلیں نازاں ہوں جس پر اک سفر ایسا تو ہو

شام ڈھلتے ہی ہمیں زنجیر پہنانے لگے
محفلوں میں بھی ہمیں یاد آئے گھر ایسا تو ہو

جس کے دامن میں اُلٹ دیں اپنے دل کی کرچیاں
اس ہجومِ شہر میں اک چارہ گر ایسا تو ہو

پھر کہیں مل جائیں ہم ترکِ تعلق کے لیئے
ہجر جان لیو اسہی ، بار دگر ایسا تو ہو

کس لیئے ہم زحمتِ آرائش ِ خانہ کریں
حالِ دل جیسا ہے ، رنگِ بام و در ایسا تو ہو

بے نوا گلیوں میں ہم کیا دستکیں دیتے پھریں
کوئی ساجد صاحبِ زنجیرِ در ایسا تو ہو ​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...