Sunday, 18 January 2015

وہ کیا میں تھا ؟
جسے یہ زعم تھا ، دنیا میں کوئی
اس کی خاطر مر بھی سکتا ہے
جو گزرے وقت کے زخموں کو سہتا
گم شدہ نغموں کی تانوں سے الجھتا
اپنے دل میں آنسوؤں کے س سیل میں گرتا چلا جاتا
زمیں پر چلنے والے گھاؤ تکتا تھا,مگر پھر ہنس بھی دیتا تھا
کہ
دنیا ملنے جلنے کا بکھیڑا ہے
کوئی آزار ہے ہر جان کو آیا ہوا ---
ازل سے تا ابد ہنسنے کا ، رونے کا قرینہ ہے
ہے روداد فریب آرزو ملنا ، بچھڑنا بھی
مگر دل میں جسے بسنا ہو ، بس جاتا ہے
جس کو ساتھ رکھنا ہو
اسے مٹی میں مل جانے تلک کوئی ٹھکانہ مل ہی جاتا ہے
کہیں خوابوں کے پچھواڑے ،کہیں یادوں کے مدفن میں ------
بکھرتے جا رہے تھے وقت کے آنسو
دنوں سے دن نکلتے جا رہے تھے
ہر اک جانب کہیں مٹی سی اڑتی تھی
گھنی گلیوں سے جگمگ شاہ راہوں تک
کسی کے نام کی مٹی
فنا ہے زندگی کا دوسرا پرتو
مقدر ہے ہر اک جذبے ،ہر اک افتاد کا
فراموشی ہے دستور محبت بھی -----فراموشی
مگر پھر بھی
اگر یہ ہے تمہارا سچ
تو وہ کیا تھا ؟؟

شاعر: ابرار احمد

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...