Saturday, January 3, 2015

شمع زیست کو دونوں سروں سے جلا رہا ہوں میں
کسی قدر اضافی روشنی پھیلا رہا ہوں میں

تجھ سے ملے رنج و راحت تجھی کو لوٹا کر
یوں زندگی اب تیرا احسان چکا رہا ہوں میں

یوں اپنے اندر کے سناٹوں سے مانوس رہا
انسانوں کی بھیڑ میں بھی تنہا رہا ہوں میں

کسی ابر تشنہ لب سا کھل کے میں برس نہ سکا
جیون بھر پیاس کا اک صحرا رہا ہوں میں

مہ و سال کے کھنکتے سکے میں سنبھال نہیں پاتا
عمروں کی ریزگاری کو بے رحمی سے لٹا رہا ہوں میں

کیا کچھ نہ کیا تیرے واسطے اے کار محبت
انگاروں پہ برہنہ پا بھی چلتا رہا ہوں میں

چاند کو چھونے کی اب تو ضد چھوڑ بھی دے
اے دل ناظر ترے ناز کب سے اٹھا رہا ہوں میں


(اظہر ناظر)

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...