شمع زیست کو دونوں سروں سے جلا رہا ہوں میں
کسی قدر اضافی روشنی پھیلا رہا ہوں میں
تجھ سے ملے رنج و راحت تجھی کو لوٹا کر
یوں زندگی اب تیرا احسان چکا رہا ہوں میں
یوں اپنے اندر کے سناٹوں سے مانوس رہا
انسانوں کی بھیڑ میں بھی تنہا رہا ہوں میں
کسی ابر تشنہ لب سا کھل کے میں برس نہ سکا
جیون بھر پیاس کا اک صحرا رہا ہوں میں
مہ و سال کے کھنکتے سکے میں سنبھال نہیں پاتا
عمروں کی ریزگاری کو بے رحمی سے لٹا رہا ہوں میں
کیا کچھ نہ کیا تیرے واسطے اے کار محبت
انگاروں پہ برہنہ پا بھی چلتا رہا ہوں میں
چاند کو چھونے کی اب تو ضد چھوڑ بھی دے
اے دل ناظر ترے ناز کب سے اٹھا رہا ہوں میں
(اظہر ناظر)
No comments:
Post a Comment