Sunday, January 18, 2015

Taameer e Nau

" تعمیرِ نَو "


دیواروں پر گرد جمی ھے
چھت پر جالے لٹکے ھیں
کمروں کی حالت خستہ ھے
صحن بھی کتنا میلا ھے
آدھا پکا آدھا کچّا
پاس پڑوس میں اونچے گھر ھیں
میرا گھر کتنا چھوٹا ھے
لیکن پھر بھی
میں اپنے کچے سے گھر کی دیواروں کی گرد کے قصّے
چھت کے جالوں کی تنہائی
کمروں کی خستہ حالت کا
بیچ سڑک پر آ کر کیوں چرچا لگواوں ؟
جیسا بھی ھے میرا گھر ھے
دیواروں سے گرد ھٹائی جا سکتی ھَے
کمرے پختہ ھو سکتے ھیں
چھت چمکائی جا سکتی ھے
گھر دوبارہ بن سکتا ھے
لیکن گھر کی عزت بیچ سڑک پر بیچ کے کیا لے لوں گا 
اُس نے سوچا
ایک نظر پھر گھر پر ڈالی
گھر کا بیرونی دروازہ پیار سے چوما
اور سڑک پر لعنت بھیجی

علی زریون

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...