Sunday 18 January 2015

وہ بولی دل کو کوئی بے یقینی ہے محبت میں

میں بولا، ٹھیک ہے پر عشق تو ایمان ہوتا ہے

وہ بولی آرزوئیں دل کے اندر بین کرتی ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے مجھ کو سنائی دیتے رہتے ہیں

وہ بولی ہم تو جیسے اک مسلسل دکھ کے قیدی ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے یہ زندگی دُکھ کا تسلسل ہے

وہ بولی کوئی شب تو خواب میں بھی خواب آتے ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے کچھ حسرتیں ایسے بھی کرتی ہیں

وہ بولی، بارشوں میں اور زیادہ جاں سلگتی ہے
میں بولا، ٹھیک ہے یہ آگ پانی کے مسائل ہیں


وہ بولی، رات کیوں مشکل سے کٹتی ہے جدائی میں
میں بولا، وقت تو کیفیتوں کا نام ہوتا ہے

وہ بولی، چاہتوں میں درد کے رہنے کی خواہش کیوں؟
میں بولا، درد کے مارے ہوؤں کو چین ملتا ہے

وہ بولی، روح کی آسودگی کو کیا ضروری ہے
میں بولا، روح کو آلودگی اچھی نہیں لگتی

وہ بولی، چاند کی اور چاندنی کی کیا کہانی ہے
میں بولا، آدم و حوا کی چاہت کی نشانی ہے

وہ بولی، بے سروپا خواہشیں بیمار رکھتی ہیں
میں بولا، آدمی اندوہ کے باطن سے نکلا ہے

وہ بولی، دور رہ کر درد بڑھ جاتا ہے سینے میں
میں بولا قربتیں بھی ہجر کے حدشے بڑھاتی ہیں

وہ بولی، شام ہوتے ہی اداسی پھیل جاتی ہے
میں بولا، رات بھی تو آنسوؤں سے عشق کرتی ہے

وہ بولی، زندگی میں تُو نہیں تو زندگی کب ہے
میں بولا ہر طرف اک لا اُبالی موت حاوی ہے

وہ بولی، عشق کا اپنا علیحدہ رنگ ہوتا ہے
میں بولا، رنگ کا اپنا علیحدہ عشق ہوتا ہے

وہ بولی، دل میں کوئی بے وجہ سا خوف رہتا ہے
میں بولا، عشق تو بے باک لوگوں کا ہی شیوہ ہے

محبت ایک پل بھی سکھ نہیں دیتی، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت کے علاوہ کون سا سکھ ہے

محبت شہر بھر میں گونج جاتی ہے کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت کے چھپا رہنے کی خواہش کیا

محبت چپ نہیں رہتی کسی پل بھی، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت بن تو کائنات گونگی ہے

محبت ذہن کا اک خاص عالم ہے، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت روح کی دہلیز ہوتی ہے

محبت بے سبب تڑپائے رکھتی ہے، کہا اُس نے
کہا میں نے، کہ یہ اسباب کیا شے ہیں محبت میں

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے

وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا؟
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے

وہ کہتی ہے، زمانے کو دلوں سے رنج کیوں کر ہے؟
میں کہتا ہوں، کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے

وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، مری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے

وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے

وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، یا شاید موت مجھ سے مان جائے گی

وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کے موسم کا

وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں

وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب کچھ احتراماً ہو


محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔بولی!
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو

وہ کہتی ہے، سُنو فرحت! تمہارا خواب کیوں ٹوٹا؟
میں کہتا ہوں، سرابی! دل میں کوئی کھینچ پڑتی تھی

تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں؟
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہری

وہ کہتی ہے، کہ فرحت شاہ! میں کچھ مضطرب سی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی! تم بھی میری روح جیسی ہو

وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی! دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں


وہ کہتی ہے، چلو فرحت!ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہاں غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بے چینیاں کیا ہیں؟
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے؟
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے؟
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے؟
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے

وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہو گی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے


وہ کہتی ہے کہ فرحت، کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دُکھ بولنے سے روک دیتے ہیں

وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں سرابی! سوچنے میں وقت لگتا ہے

میں کہتا ہوں، تمہیں دریا کنارے کیسے لگتے ہیں
وہ کہتی ہے، تمہیں بچھڑے سہارے کیسے لگتے ہیں

میں کہتا ہوں، تمہیں دریا کنارے کیسے لگتے ہیں
وہ کہتی ہے، تمہیں بچھڑے سہارے کیسے لگتے ہیں

وہ بولی، رات سے کیا بات کرتے ہو اکیلے میں؟
میں بولا، درد کی، کچھ کچھ محبت کی، جدائی کی

وہ بولی، چاند کیا آتا ہے تم سے چونچلیں کرنے؟
میں بولا، ہاں کبھی سپنوں کے آنگن میں اُترتا ہے

وہ بولی، کون اکثر یاد آتا ہے اُداسی میں
میں بولا، کچھ پرانے راستے، بچپن، اور اک لڑکی

وہ بولی، درد کی جزیات میں پڑنے سے کیا بہتر
میں بولا، درد کو خوش خوش سہیں اور کوچ کر جائیں

وہ بولی، زندگی تو دائروں کے پھیلنے سے ہے
میں بولا، موت بھی اک دائرہ ہے دور تک پھیلا

وہ بولی، روح کے اندر کہیں پر آگ جلتی ہے
میں بولا، ہاں دھواں میں نے بھی دیکھا ہے نگاہوں میں

وہ بولی، اک دہکتا شور شریانوں میں بہتا ہے
میں بولا، ہاں بدن پر آبلے میں نے بھی دیکھے ہیں

وہ بولی، سانس پر بھی درد کے کوڑے برستے ہیں
میں بولا، ہاں لہو پر نیل تو میں نے بھی دیکھے ہیں

وہ بولی، ذات کی تہہ میں نہ جانے کیا نہاں ہو گا
میں بولا، جسم پر ابھری وریدوں سے بھی ظاہر ہے

وہ بولی، دق زدہ جیون چھپاتی پھر رہی ہوں میں
میں بولا، ناخنوں کی زردیوں نے کر دیا عریاں

وہ کہتی ہے، تری جیبوں میں اتنے خواب کیونکر ہیں؟
میں کہتا ہوں، کہ دنیا میں مجھے زندہ بھی رہنا ہے

وہ کہتی ہے، ترے کالر پہ مٹی کا نشاں کیسے؟
میں کہتا ہوں، کہ مجبوری علامت چھوڑ جاتی ہے
وہ کہتی ہے، تری آواز میں معصومیت سی ہے
میں کہتا ہوں، کہ یہ مظلومیت کے بعد آتی ہے

وہ کہتی ہے، ترے چہرے پہ کربِ بے کراں کیسا؟
میں بولا، دل نے چہرے پر ذرا سا رنگ چھوڑا ہے

وہ کہتی ہے، تیرے ہاتھوں پہ زخموں کے مناظر کیوں؟
میں کہتا ہوں، کہ کچھ زیور بڑے انمول ہوتے ہیں

وہ بولی، عمر بیتی کوئی بھی ملنے نہیں آیا
میں بولا، عمر سے پوچھو کہ آخر عمر کیوں بیتی

وہ بولی، حُسن ڈھلنے کے لیے ہوتا ہے، لگتا ہے
میں بولا، حُسن ہو، یا بخت ہو، یا چاند سورج ہو

وہ بولی، اب تو زلفوں میں بھی چاندی سی سرک آئی
میں بولا، روح تک میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہوں گی

وہ بولی، ہاتھ دیکھو بے ارادہ ہی لرزتے ہیں
میں بولا، ہاتھ دکھلاؤ تو پھر دیکھو بھی ہمت سے

وہ بولی، زندگی کاآخری کردار حیرت ہے
میں بولا، موت سے پہلے کوئی گھر بار حیرت ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کو کب بلاؤ گے؟
میں کہتا ہوں، تمہیں جب دھوپ کا موسم ستائے گا


وہ مجھ سے پوچھتی ہے، پنچھیوں سے آشنائی ہے
میں کہتا ہوں کہ اشکوں کی قطاروں سے بھی واقف ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شہر کی بنیاد میں کیا ہے
میں کہتا ہوں، کسی جنگل کا قتلِ عام ہے شاید

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم سمندر میں کبھی اُترے
میں بولا، اک سمندر، دوسرے میں کس لیے اُترے

وہ کہتی ہے، مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں
میں کہتا ہوں، کہ یہ مایوسیاں طاقت بھی ہوتی ہیں

وہ کہتی ہے، بہت تنہا ہوں میں اس پوری دنیا میں
میں کہتا ہوں، کہ یہ احساس تو ہو گا خدا کو بھی


No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...