Sunday, 18 January 2015

زباں ہے تو نظر کوئی نہیں ہے
اندھیرے ہیں سحر کوئی نہیں ہے 

محبت میں فقط صحرا ہیں جاناں
محبت میں شجر کوئی نہیں ہے

خموشی چیختی جاتی ہے لیکن
کسی پر بھی اثر کوئی نہیں ہے

بھری بستی میں تنہا کر گئے ہو
کہ جیسے یاں خطر کوئی نہیں ہے

اگر انساں کے بارے پوچھتے ہو
بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے

میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا ہوں
مجھے تیرا تو ڈر کوئی نہیں ہے

(فرحت عباس شاہ)

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...