Monday, 19 January 2015

Din Kuch aisay guzarta hai koi


دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی 

آئینہ دیکھ کر تسّلی ہوئی 
ہم کو اس کے گھر میں جانتا ہے کوئی 

پَک گیا ہے شجر پہ پھل شاید 
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی 

پھر نظر میں لہو کے چھینٹے ہیں 
تم کو شاید مغالطہ ہے کوئی 

دیر سے گونجتے ہیں سناٹے 
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی 

گُلزار​ 

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...