کچھ خواب جو نیند کی جان دکھائی دیے
ٹوٹے تو تری پہچان دکھائی دیے
جل تھل تھی لہو سے گلاب نظر سرِ شام
جب دھول چھٹی تو مکان دکھائی دیے
اے حرفِ دعا! مرے سچّے حرفِ دعا
کیوں اجر کے دن سنسان دکھائی دیے
موسم بدلا تو ہَواؤں کے ہاتھ میں بھی
جو پھول تھے تیر کمان دکھائی دیے
جو میرے لیے سب کچھ تھے وہی اک دن
بے آب و گیہ میدان دکھائی دیے
یہ اس کی نظر کا کمال تھا یا کوئی وہم
سپنے تتلی کی اُڑان دکھائی دیے
تھک ہار کے جب دریا اُترے تو وہاں
اک شہرِ وفا کے نشان دکھائی دیے
جب نہرِ فرات کو ہوش آیا تو اُسے
نیزوں پہ چڑھے قرآن دکھائی دیے
خاور اب کس سے کہوں کہ مجھے اک روز
اُس آنکھ میں دونوں جہان دکھائی دیے
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment