ہوائے دُشمن شناس آگے، کھلا تو اِک بادبان تھا میں
ہلاکتوں کے ازل سفر میں گئے ہوؤں کا نشان تھامیں
کھلے پرَوں میں کبوتروں نے سمندروں کو چھپالیا تھا
اِک ایسے لمحے خود اپنے مابین عزم کا امتحاں تھا میں
شجر مکینوں کا حوصلہ تھے جو کھوگئے اُونچے پانیوں میں
مگر جو دہشت زدہ اَنا کا اسیر تھا، وہ مکان تھا میں
سحاب چہروں پہ دُھوپ ترکش سے روشنی کے عذاب ٹوٹے
سوادِ منظر کے زرد افقوں پہ ایک ہی سایبان تھا میں
بدلتی رُت کانگر، کہ ہر شاخ، ہجرتِ گل کے سوگ میں تھی
سرائے جاں کی حدوں میں تتلی کی ایک زخمی اُڑان تھا میں
شکار آنکھوں کے سامنے تھے، مگر مری موت آچکی تھی
اَجل سمے کے اٹل ارادوں کے سامنے آسمان تھا میں
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment