کہیں سنگ میں بھی ھے روشنی کہیں آگ میں بھی دھواں نہیں
یہ عجیب شہر طلسم ھے ! کہیں آدمی کا نشاں نہیں
نہ ھی اس زمیں کے نشیبب میں نہ ھی آسماں کے فراز پر
کٹی عمر اس کو تلاشتے ، جو کہیں نہیں پر کہاں نہیں ؟
یہ جو زندگانی کا کھیل ھے ، غم و انبساط کا میل ھے
اسے فدر کیا ہو بہار کی ، کبھی دیکھی جس نے خزاں نہیں
جو تھے اشک میں نے پی لیئے ، لب خشک و سوختہ سی لیئے
میرے زخم پھر بھی عیاں رہے ، مرا درد پھر بھی نہاں نہیں
نہیں اس کو عشق سے واسطہ وہ ھے اور ھی کوئی راستہ
اگر اس میں دل کا لہو نہیں ، اگر اس میں جاں کا زیاں نہیں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment